ہولی (اعظم کریوی)
کشن پور ٹھاکروں کی بستی تھی، جس کے زمیندار دلاور سنگھ اور رام سنگھ دونوں چچیرے بھائی تھے۔ پٹی دار ہوتے ہوئے بھی ان میں کوئی نفاق نہ تھا، دونوں امن پسند اور صلح کل واقع ہوئے تھے۔ زمینداری کے جھگڑوں کا فیصلہ آپس ہی میں کرلیتے تھے۔ کبھی کچہری عدالت جانے کی نوبت نہ آتی تھی۔ اسامی بھی ان سے بہت خوش تھے۔ حتی کہ زمینداروں کے اشارہ پر جان تک دینے کو تیار ہوجاتے تھے۔ گاؤں بھر میں صرف اہیروں کی برادری ہی زمینداروں سے ناراض تھی۔ جب دلاور سنگھ اور رام سنگھ کے والدین بقید حیات تھے تو ان اہیروں نے بڑا سر اٹھایا تھا، جس سے ساراگاؤں پریشان ہوگیا تھا۔ کیونکہ ان کی عادت تھی کہ جب رات کو گاؤں والے سو جاتے تو وہ اپنے مویشیوں سے ان کے کھیت چرالیتے اور صبح ہوتے ہی اپنےگھر واپس آجاتے۔ موقع ملنے پر وہ چوری کرنے سے بھی نہ چوکتے تھے، کئی مرتبہ وہ پکڑے گئے لیکن ہر مرتبہ معافی مانگنے پر گاؤں والوں نے انھیں چھوڑ دیا۔ پھر بھی جب وہ اپنی عادت سے باز نہ آئے تو زمینداروں نے اہیروں کو کاشتکاری سے بے دخل کرکے گاؤں سے نکال دیا۔ جس پر ان لوگوں نے کش پور سے کچھ فاصلے پر ایک جنگل میں اپنی بستی بسالی جو اہیروں کا پوروہ کہلانے لگے۔
جب تک دلاور سنگھ اور رام سنگھ کے والدین زندہ رہے اہیروں نے کشن پور کی طرف رخ کرنے کی بھی ہمت نہ کی لیکن ان کے مرتے ہی وہ پھر کشن پور میں آنے جانے لگے اور نوجوان ناتجربہ کار زمینداروں سے بظاہر نہایت ادب سے ملتے تھے لیکن باطن میں ان سے نفرت کرتے تھے اور کشن پور کی خوش حالی دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے تھے۔ جب وہ اپنے شکستہ مکانات کو دیکھتے تو انہیں وہ دن یاد آجاتا جب وہ کشن پور سے بڑی بے عزتی کے ساتھ نکالے گئے تھے۔ جن زمینوں کے کبھی وہ مالک تھے اب ان پر دوسروں کا قبضہ تھا۔ گنپت ان سب کا سردار تھا اور اس کے تین لڑکے بڑے کسرتی اور لٹھ باز تھے، ان کی طاقت پر اور گنپت کی چالاکی پر اہیروں کو بڑا ناز تھا۔ دلاور سنگھ اور رام سنگھ سے دو ایک مرتبہ مل کر گنپت نے اندازہ کرلیا کہ دونوں ناتجربہ کار جوشیلے نوجوان ہیں جن کو بہت آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اب اس کا روزانہ کامعمول ہوگیا کہ دونوں سے مل کر اپنی خیرخواہی جتاتا اور باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے برائی کرتا لیکن اس خوبی کے ساتھ کہ کسی کو گنپت کی نیک نیتی پر شبہ نہ ہوتا۔ رفتہ رفتہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے جلنے لگے۔ آخرکار گنپت کی شرارت اور چالبازی سے وہ دن بھی آگیا جب ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کی جان کا دشمن ہوگیا۔ پہلے ہنر اور خوبی کی تلاش تھی اب برائیوں پر نظر رہنے لگی۔ ذرا ذرا سی بات پر تھا نہ اور کچہری تک دوڑنے لگے۔ مقدمہ بازی میں دونوں جانب سے روپیہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا۔ وکیلوں کی فیس، پولیس کی رشوت اور اہلکاروں کے حقوق میں ان کی جائدادیں بکنے لگیں۔
دلاور سنگھ اور رام سنگھ کے زمانے میں کبھی تھانہ دار صاحب کو گاؤں تک آنے کی ضرورت نہ ہوئی تھی۔ اب پولیس کا معمولی کانسٹیبل اور چوکیدار بھی اپنا رعب جمانے لگا۔ جن اسامیوں کی طرف کسی نے ٹیڑھی نظر سے بھی دیکھنے کی ہمت نہ کی تھی اب وہ بیگار میں پکڑے جانے لگے۔ گنپت کا منشا پورا ہوگیا۔ اس نے زمینداروں سے اپنی برادری کی ذلت کا انتقام لے لیا۔ اب کشن پور میں اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ تمام اہیر جو جلاوطن کردیے گئے تھے پھر گنپت کے ساتھ کشن پور میں آکر رہنے لگے۔
پہلے گنپت دلاور سنگھ کے یہاں زیادہ آمد و رفت رکھتا تھا لیکن اب اس کی بھنگ امرسنگھ کے دروازہ پر چھننے لگی۔ اس کی مکر و فریب کی باتیں دلاورسنگھ اور رام سنگھ کی نااتفاقی کی آگ میں ایندھن کا کام کرتی تھیں۔ کئی مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ گاؤں والوں نے دونوں زمینداروں میں صلح و صفائی کی کوشش کی لیکن گنپت کی ریشہ دوانیوں نے اس کا موقع ہی نہ آنے دیا۔ وہ خود صلح کی کارروائی میں شامل ہوجاتا۔ دیکھنے والے یہی سمجھتے کہ گنپت سے زیادہ صلح پسند اور کوئی نہ ہوگا مگر دراصل وہی شرارت اور نفاق کا باعث تھا اور اسی وجہ سے صلح نہ ہونے پاتی تھی۔ بہت دنوں تک گاؤں والے گنپت کی ذہنیت سے واقف نہ ہوسکے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ حلقہ کے تھانہ دار صاحب کی نظر عنایت گنپت کی طرف زیادہ رہتی ہے تو وہ گنپت سے کچھ بدگمان ہوگئے۔ لیکن اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا۔ پہلے گنپت تنہا تھا اب تھانہ دار صاحب بھی اس کے طرفدار تھے۔
جب وہ گاؤں میں آتے تو گنپت اپنی تمام برادری کا دودھ دہی ان کی خدمت میں حاضر کردیتا۔ تھانہ دار صاحب بھوکے بیل کی طرح موٹی ملائی اتار کر دودھ پیتے اور جو باقی رہتا کانسٹیبلوں کو بخش دیتے۔ ہاتھ دھونے پر بھی چکناہٹ دور نہ ہوتی تو مونچھوں پر پھیر دیتے ایسا عمدہ اور تازہ دودھ گاؤں بھر میں کسی کونصیب نہ ہوتا تھا۔ اس کے بدلہ میں گنپت اور اس کے خاندان والے گاؤں میں جھگڑا اور فساد کرتے اور داروغہ صاحب ان کی حرکتوں کو نظرانداز کرتے رہتے۔ پھاگن کا مہینہ تھا۔ ہولی کے دس دن اور باقی تھے۔ اس سال فصل اچھی ہوئی تھی، پھگوا کے راگ سے رات کے وقت گاؤں میں بڑی چہل پہل رہنےلگی۔ معمولی کاشتکاروں کی عورتوں نے بھی اپنے شوہروں کونئے نئے زیور بنوانے کے لیے آمادہ کرلیا تھا۔ کچھ کچھ کٹائی بھی شروع ہوگئی تھی۔ ہولی کے دن نئے گیہوں کی پوری کچوری بنے گی، اسی خیال میں چھوٹے بڑے سب مگن تھے، لیکن دلاور سنگھ اور ان کے گھروالوں کو اطمینان قلب حاصل نہ تھا، ان کے گیہوں کے کھیت پک گئے تھے۔ ان کھیتوں کی حالت سب کھیتوں سے اچھی تھی۔
رات کو سردی میں ٹھٹھر کر دلاور سنگھ اپنے کھیت کے کسی کونے میں بیٹھ کر فصل کی رکھوالی کرتے تھے، ان کو ڈر تھا کہ کہیں گنپت اور رام سنگھ کوئی شرارت نہ کربیٹھیں۔ ادھر رام سنگھ بھلا دلاور سنگھ کی خوشحالی کس طرح ٹھنڈے دل سے دیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے گنپت کے مشورہ سے پٹواری کو ملایا اور دلاور سنگھ کے گیہوں والے کھیت کی کاشت اپنے نام لکھالی۔ ان کی یہ کارروائی جائز تھی یا ناجائز۔ اس سے کوئی مطلب نہیں، انسان جب جھگڑا کرنے پر آجاتا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈھ ہی لیتا ہے۔ دلاور سنگھ جنھوں نے کھیت کو دھوپ میں چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہاکر جوتا، بارش اور سردیوں کی تیز و تند ہواؤں کا مقابلہ کرکے جس کھیت کی رکھوالی کی، جس کی پیداوار پر ان کے بال بچے خوش تھے، جس سے گیہوں پر ہولی منائی جانے والی تھی، اسی کھیت پر گنپت اور رام سنگھ کی ٹیڑھی نظریں پڑ رہی تھیں اور دلاور سنگھ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ جس دن کھیت کٹنے والا تھا اس کی شام کو دلاورسنگھ نے گاؤں کے چماروں کو اطلاع دے دی تھی۔ جب رام سنگھ کو معلوم ہوا کہ کل دلاور سنگھ کا کھیت کٹے گا تو انھوں نے بھی اپنے آدمیوں کو ہوشیار کردیا۔ اس کے ساتھ ہی تھانہ میں بھی رپٹ لکھوادی کہ دلاور سنگھ کل ہمارے کھیت کو کاٹنے کا ارادہ رکھتا ہے، ضروری کارروائی کی جائے ورنہ بلوہ ہوجانے کا ڈر ہے۔
صبح ہوتے ہی دونوں طرف کے آدمی کھیت پر پہنچ گئے۔ رام سنگھ کے ’’گہار‘‘ کو دیکھ کر دلاور سنگھ دنگ رہ گئے۔ وہ کچھ کہنے والے ہی تھے کہ رام سنگھ نے للکارا۔ ’’کاشت ہمارے نام لکھی ہے تم یہاں کیوں آئے ہو، اپنا بھلا چاہتے ہو تو سامنے سے ہٹ جاؤ۔ ہمارے آدمی کھیت کاٹیں گے۔‘‘ دلاور سنگھ عجیب کش مکش میں تھے۔ سامنے سے ہٹتے ہیں تو سال بھر کی کمائی جاتی ہے او رمقابلہ کرتے ہیں تو جان جاتی ہے کیونکہ فریق مخالف کی طاقت بڑھی ہوئی تھی۔ انھوں نے تھوڑی دیر کچھ سوچا اور پھر مرنے مارنے کو تیار ہوگئے۔ وہ مٹی کے پتلے نہ تھے، لڑکپن سے انھیں پہلوانی کا شوق تھا، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کھیت کی پامالی کیسے دیکھ سکتے تھے۔ راجپوتی خون نے جوش مارا اور وہ لاٹھی سنبھال کر آگے بڑھے، پھر کیا تھا دونوں طرف سے لاٹھیاں چلنے لگیں، گنپت کی دلی مراد برآئی، وہ بھس میں چنگاری لگاکر دور سے تماشہ دیکھنے والوں میں تھا۔ دور ہی سے چلا رہا تھا ’’بڑھے چلو ۔ واہ رہے جوانو! بس مار لیا ۔ جانے نہ پائے۔ گھبرانا نہیں۔ دلاورسنگھ کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ ہے۔ ان کی ساری ہیکڑی بھلادو۔ چاروں طرف سے دلاور سنگھ کو گھیر لیا، تنہا آدمی پورے ’’گہار‘‘ کا کہاں تک مقابلہ کرتا۔ زخموں سے چور ہوکر دلاورسنگھ زمین پر بیہوش ہوکر گرے، لیکن گرتے گرتے انھوں نے رام سنگھ کو بھی زمین پر لٹادیا۔ رام سنگھ کا خیال تھا کہ داروغہ جی موقع واردات پر ضرور پہنچ جائیں گے، مگر ایسا نہ ہوا، کیونکہ داروغہ جی کو اس کا تجربہ تھا کہ فوجداری کے بعد خود ہی لوگ ان کی چوکھٹ پر ناک رگڑنے آئیں گے۔
لڑائی میں کودنا ان کی مصلحت کے خلاف تھا۔ چنانچہ ان کا خیال ٹھیک تھا۔ فوجداری کے بعد دونوں طرف والے دوڑتے ہوئے رپٹ لکھانے تھانہ میں پہنچے۔ لیکن وہاں صرف وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو سب سے زیادہ بھینٹ دے، اور صرف داروغہ جی ہی کی نہیں بلکہ ادنیٰ سپاہیوں کی بھی پیٹ پوجا کا سامان مہیا کرے۔ غریبوں کو وہاں کوئی نہیں پوچھتا، امیروں کی قدر ہوتی ہے۔ داروغہ جی کو خوش کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جب وہ تحقیقات کرنے کے لیے کشن پور میں پہنچے تو سارا گاؤں تھرا اٹھا ایسی بڑی فوجداری گاؤں میں کبھی نہ ہوئی تھی۔ داروغہ جی کے پہنچتے ہی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی جو فوجداری میں شریک تھے وہ بھی اور جو علیحدہ تھے وہ بھی پکڑ بلائے گئے۔ گنپت کی چاندی تھی، داروغہ جی نے اسی کے مکان پر ڈیرا جمایا۔ گھوڑے کے سامنے ہری ہری دوب ڈال دی گئی۔ گنپت کھڑا ہوکر داروغہ جی کو پنکھا جھلنے لگا۔ دودھ دہی اور ملائی کی افراط تھی، جن کانسٹیبلوں کو گڑ کاشربت بھی مشکل سے ملتا تھا وہ دودھ کے شربت پر منھ بنانے لگے۔ اس پکڑ دھکڑ کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ رام سنگھ نے ایک ہزار پر داروغہ جی کو راضی کرلیا۔ چونکہ دلاور سنگھ اس سے زیادہ نہ پیش کرسکے، وہ مظلوم ہوکر بھی ظالم ثابت کئے گئے۔ داروغہ جی کی کوشش سے ڈاکٹر نے رام سنگھ کو ‘ضرب شدید‘ کا سرٹیفیکٹ دے دیا لیکن دلاور سنگھ کو ’ضرب خفیف‘ ہی کا سرٹیفیکٹ نصیب ہوا۔ پولیس نے دلاور سنگھ کو حراست میں لے لیا اور بعد میں بڑی مشکل سے ضمانت پر رہا کیا۔
مقدمہ چلا، تاریخیں بڑھنے لگیں، وہ زمیندار جو عدالت تک جانا اپنی کسر شان سمجھتے تھے انھیں کی اولاد اب اہلکاروں کی جوتیاں اٹھانے میں بھی کوئی بے عزتی نہ سمجھتی تھی۔ باپ داد کی کمائی مقدمہ بازی میں اڑنے لگی۔ فصلیں کھڑی تھیں لیکن ان کو اتنی فرصت ہی نہ ملتی تھی کہ وہ انھیں کاٹ سکیں۔ فوجداری سے پہلے رام سنگھ کے کچھ کھیت کٹ چکے تھے اور ان کا اناج کھلیان میں پڑا تھا، وہ اسے بھی گھر تک نہ لاسکے تھے۔ کھلیان میں اناج کا انبار دیکھ کر گنپت کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور اس نے اپنے ایک لڑکے کو کچھ اشارہ کردیا ۔ دوسرے دن ہولی جلنے کی مہورت تھی، گاؤں والے ’’پھگوا گانے میں محو تھے، گنپت کا لڑکا منھ چھپائے رام سنگھ کے کھلیان میں پہنچا، ایک مرتبہ ادھر ادھر دیکھا اور سوکھی بالیوں میں دیا سلائی دکھاکر بھاگ کھڑا ہوا۔ جب آگ خوب پھیلی اور شعلے بلند ہوئے تو گاؤں والے دوڑے مگر اب ان کا دوڑنا بے کار تھا، دیکھتے ہی دیکھتے سارا کھلیان جل کر راکھ ہوگیا۔ گنپت نے مخبری کی کہ یہ ساری شرارت دلاور سنگھ کی ہے، میں نے خود ان کو آگ لگاکر بھاگتے دیکھا ہے۔ رام سنگھ نے دانت پیس کر کہا ’’اچھی بات ہے، میں دلاور سنگھ کے گھر میں آگ نہ لگادوں تو میرا نام رام سنگھ نہیں۔‘‘
صبح ہوتے ہی جب دلاور سنگھ نے رام سنگھ کی دھمکی کی خبر سنی تو وہ قابو سے باہر ہوگیا۔ اس نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا رام سنگھ کے دروازے پر جاکر آواز دی ’’بہادر ہے تو باہر نکل۔ چوری چھپے وار کرنا بہادر راجپوتوں کا کام نہیں ہے۔‘‘ رام سنگھ بھی آخر راجپوت تھا، کوئی گھر پر آکر للکارے اور وہ اندر بیٹھا رہے۔ وہ اپنے گھر سے تڑپ کر نکلا اور باہر نکلتے ہی لاٹھی چلادی۔ تھوڑی دیر تک دونوں نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خوب خوب جوہر دکھائے اور پھر ایک ساتھ ہی خون میں نہائے ہوئے زمین پر گرے۔ کچھ دیر تک تڑپے اور پھر ان کی روحیں قید ہستی سے آزاد ہوگئیں۔ ہولی کا دن تھا۔ گاؤں والوں نے تو رنگ کی ہولی کھیلی، لیکن دو بھائیوں نے خون کی ہولی منائی۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |