ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھے
by آغا حجو شرف
303914ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھےآغا حجو شرف

ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھے
کبھی تھا شوق گل ہم کو کبھی دل ہم بھی رکھتے تھے

قضا بھی تیرے ہاتھوں چاہتے تھے تجھ کو کیا کیجے
نہیں تو تیغ دم کے ساتھ قاتل ہم بھی رکھتے تھے

خطائے عشق پر ہم پر نہ اتنا بھی ستم ڈھاؤ
اگر چاہا تو چاہا کیا ہوا دل ہم بھی رکھتے تھے

خدا کو علم ہے زندہ ہے یا جل بھن گیا شب کو
دل اپنا تیرے پروانوں میں شامل ہم بھی رکھتے تھے

مری جاں بازیوں پر گور میں رستم یہ کہتا ہے
نہ تھے ایسے جری گو شیر کا دل ہم بھی رکھتے تھے

علاقہ عشق کا لیتے یہ سوچے ہوں گے بربادی
وگرنہ نقد جان و سکۂ دل ہم بھی رکھتے تھے

خدا کے سامنے ہوگی جو پرسش عشق بازوں کی
کہیں گے ہم بھی اتنا عشق کامل ہم بھی رکھتے تھے

تمنا تھی ہمیں بھی تیری صحبت دیکھ لینے کی
کہ پروانے تھے شوق و ذوق محفل ہم بھی رکھتے تھے

بڑے عقدہ کشا تھے تم تو حل اس کو بھی کرنا تھا
مہم عشق سر کرنے کی مشکل ہم بھی رکھتے تھے

تلاش یار میں خفیہ گئے عشاق دنیا سے
خبر بھی کی نہ ہم کو شوق منزل ہم بھی رکھتے تھے

کوئی لحظہ جدائی میں تڑپنے سے نہ فرصت تھی
کبھی پہلو میں دل مانند بسمل ہم بھی رکھتے تھے

جنوں کا زور تھا دل میں جگہ کر لی تھی وحشت نے
غرض پیش نظر لیلیٰ و محمل ہم بھی رکھتے تھے

جگہ دل کی طرح پہلو میں دی ہوتی ہمیں تم نے
لیاقت اس سرافرازی کے قابل ہم بھی رکھتے تھے

اسے کیوں کر نہ کہتے ہم کہ یکتا ہے خدائی میں
شناسا تھے تمیز حق و باطل ہم بھی رکھتے تھے

خدا نے جان چھڑوائی شرفؔ وہ خود بگڑ بیٹھا
حقیقت میں عجب معشوق جاہل ہم بھی رکھتے تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse