ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا
Appearance
ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا
فدا کرتا ہوں ہر دم جی کوں اپنے یار جانی کا
دیے میں جوں بتی ہو یوں دہکتی ہے زباں مکھ میں
کروں جس رات کے اندر بیاں سوز نہانی کا
انجہو انکھیاں کے روغن ہیں ہمارے شعلۂ دل کوں
بجھانا عشق کی آتش نہیں ہے کام پانی کا
اثر کرتا ہے نالہ آبروؔ کا سنگ کے دل میں
ہنر سیکھا ہے شاید کوہ کن سوں تیشہ رانی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |