Jump to content

ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا

From Wikisource
ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا
by میر تقی میر
313544ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیامیر تقی میر

ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا
شیوہ ستم کا تیرہ دلوں کو سکھا دیا
خیمہ انھوں نے ابن علی کا جلا دیا
پردہ سا رہ گیا تھا کچھ اک سو اٹھا دیا

کیا تونے آنکھیں موندلیں اے تیرے سر پہ خاک
ماں اس کی فاطمہ گئی عالم سے دردناک
باپ اس کا بوتراب ہوا کوفے میں ہلاک
بھائی حسن کو زہر پلا کر سلا دیا

ہے نقش وہ جو کھینچ گیا ہے کدورتیں
بیٹا بھتیجا دونوں تھے گویا کہ مورتیں
تھیں آب و رنگ صفحۂ عالم وہ صورتیں
سو بات کہتے تونے انھوں کو مٹا دیا

آزار تیرے جور سے انواع پا گیا
یاقوت پارے خاک میں اپنے ملا گیا
کیا کیا زیاں حسین جہاں میں اٹھا گیا
ناموس دی بہ باد جدا سر جدا دیا

مرنا حسین کا ہے فلک یوں نہ جائے گا
حلق بریدہ سے جو وہ عرصے میں آئے گا
ہر گام ایک تازہ قیامت اٹھائے گا
یہ وہ نہ ہو کہ خون کیا پھر دبا دیا

آنکھوں میں اس کی ہو نہ جہاں کس طرح سیاہ
کیا سوجھے اس کو چہرے پہ کس کے کرے نگاہ
اکبر اندھیرے گھر کا اجالا تھا اس کے آہ
باد ستم نے تس کو دیا سا بجھا دیا

اصغر کو خیمہ گاہ سے لایا تھا تشنہ کام
سو کام ایک تیر میں اس کا ہوا تمام
پانی کا پھر حسین نے ہرگز لیا نہ نام
دیکھا کہ طفل شیر کو لوہو چٹا دیا

ہمدم جو تھے حسین کے مارے گئے سبھی
یاری کی یاوری کی نہ مہلت کسو کو دی
عباس جس سے بازو امامت کا تھا قوی
تیغ جفا سے بازو ہی اس کا کٹا دیا

قاسم چراغ بھائی کا آیا بتنگ ہو
کہنے لگا کہ میرے تئیں حکم جنگ ہو
تاچند زندگانی وبال اور ننگ ہو
افسردگی کہاں تئیں جیسے بجھا دیا

بولا چچا کہ دل میں جو کرتا ہوں میں تمیز
پاتا ہوں اپنے بیٹوں سے بھی تیرے تیں عزیز
تیرے عوض جہاں کو اگر دیں تو کیا ہے چیز
ہونے نے تیرے بھائی کے غم کو بھلا دیا

دل تنگ دیکھتا ہوں تو لاچار میں تجھے
ورنہ نہ دیکھوں بیکس و بے یار میں تجھے
اس آگ میں نہ جانے دوں زنہار میں تجھے
مت جان کو جلا تجھے کٹے لگا دیا

اس ماجرے کو گرچہ دیا اس جواں نے طول
پر بات اس کی آگے چچا کے نہ ہوئی قبول
جب دیکھا مدعا نہیں ہوتا ہے یوں حصول
بازو سے کھول باپ کا اپنے لکھا دیا

پوچھا کہ کیا ہے یہ تو کہا کیجیے نظر
لکھ دے گیا تھا مجھ کو دم مرگ یہ پدر
پڑھتے ہی اس کے خون ہوا غم سے سب جگر
مغموم ہو کے فرق مبارک جھکا دیا

اس میں لکھا تھا یہ کہ سن اے مایۂ حیات
میں تو موا پہ یاد رہے تجھ کو میری بات
ایسا نہ کیجیوکہ کہے سن کے کائنات
ابن حسن نے ساتھ چچا کا بھلا دیا

القصہ پڑھ کے ساتھ بھتیجے کے تیں لیا
اہل حرم کو خیمے میں جا ایک جا کیا
اک جامہ بیش قیمتی اپنا اسے دیا
رو رو نکاح بیٹی کا اس سے پڑھا دیا

رسمیں ہنوز باقی تھیں جو آئی اک صدا
کاے سیدو مگر نہیں تم میں کوئی رہا
حاضر براے جنگ ہو قاسم جو اٹھ چلا
چلنے نے ایسے اس کے سبھوں کو رلا دیا

آیا دلھن سے حشر کا وعدہ جو درمیاں
کہنے لگی کہ ڈھونڈھوں تو واں پاؤں میں کہاں
بولا کہ پیش فاطمہ بولی کہ کچھ نشاں
چاک آستیں کا ہاتھ اٹھا کر دکھا دیا

نکلا جو خیمہ گاہ سے یہ مستعدکار
اک ابر سامنے سے اٹھا اس کے فتنہ بار
تیروں کی بارش اس سے تھی یا تیغ آبدار
طوفاں ہوا کہ اس کو یکایک ڈبا دیا

صرفہ کیا نہ شہ نے بھی پھر اپنی جان کا
سینہ کے تیں سپر کیا تیغ و سنان کا
جو تاج سر تھا فرق شہان جہان کا
اس طرح تونے خاک میں اس کو ملا دیا

پر بیکسانہ جی سے گیا ہے وہ بے وطن
یار و رفیق سب کے ہیں بے سر پڑے بدن
کوئی نہیں رہا ہے کہ دیوے اسے کفن
سب دار و دستہ کاٹ کے اس کا گرا دیا

کیا کیں تھا اہل شام کو اس آفتاب سے
کرتے رہے مضائقہ اک چلو آب سے
آخر کیا حجاب نہ کچھ بوتراب سے
سر کاٹ کر غریب کا نیزے چڑھا دیا

خیمہ جہاں تھا اس کا ہوئے خیمہ گاہ خصم
اسباب عترتوں کا گئی لے سپاہ خصم
تن اس کے دوستوں کے ہوئے فرش راہ خصم
ظلم و ستم سے مار کے سب کو بچھادیا

مظلوم سیدوں کا نہ ثابت ہوا گناہ
آل نبی کا پاس کیا خوب واہ واہ
مارا جہاں کہ وھاں نہ ملا قطرہ آب آہ
لوہو سے ان پیاسوں کے دریا بہا دیا

ناموس خاندان نبوت گئی بباد
گھر بار لوٹ لے گئے اعداے بدنہاد
واماندگاں پہ حد سے تعدی ہوئی زیاد
ان بیکسوں کا واہ رے انصاف کیا دیا

احوال عابدیں سے کریں ہم سو کیا مقال
آگے ہی تھا بدن کا مرض سے تباہ حال
قیدی جو راہ جاتے ہوا اور پائمال
ناموس کی خرابی نے دونا سکھا دیا

غیرت رہا تھا جو حرم کبریا کی گھر
باشندگاں کو واں کے نکالا برہنہ سر
جاویں ادب سے جس کے کنے ہاتھ باندھ کر
اس عابدیں کا ہاتھ رسن سے بندھا دیا

ناچار جس طرح سے گیا وہ نہ کوئی جائے
دیکھا جو کچھ کہ ان نے کسو کو نہ حق دکھائے
آیا جو اس نزار سے ایوبؑ سے نہ آئے
ہر ہر قدم پہ ضعف بدن نے اڑا دیا

کیا کچھ کیا نہ تونے فلک اس کے باب میں
زنداں میں اہل بیت رہے پیچ و تاب میں
بیٹی نے اس کی دیکھا اسے واں جو خواب میں
اس واقعے کی دھوم نے دشمن جگا دیا

شورش کی وجہ سن کے برا اپنے دل میں مان
اٹھ بیٹھ روسیاہ نے سوتے سے اس ہی آن
رکھ کر سر بریدہ کو کسوایا ایک خوان
سربستہ پھر وہ خوان اسے واں منگا دیا

کھولا جو خوان کو تو ہر اک نیم جاں ہوئی
ازبسکہ گرم نالہ و آہ و فغاں ہوئی
چلائی بیٹی ایسی کہ محشر عیاں ہوئی
جی کو غم پدر میں پھر ان نے کھپا دیا

کیا چال تھی سپہر جو تیں اختیار کی
بنیاد کھود ڈالی حرم کے جدار کی
کچھ فکر ہے تجھے بھی سرانجام کار کی
ظالم کسے بگاڑ کے کس کو بنا دیا

گھر پر علیؓ کے ایسی مصیبت تھی جب پڑی
ہر پردگی نکل کے ہوئی بے ردا کھڑی
کیدھر تھے تیرے دیدۂ مہر و مہ اس گھڑی
مل کر زمیں سے تونے نہ ان کو چھپا دیا

اس کم سپہ کو خصم سے آخر لڑا رکھا
لاشے کو اس کے خاک میں بے سر پڑا رکھا
سقف منقش اپنی کو تونے کھڑا رکھا
گھر اہل بیت ختم رسلؐ کا بٹھا دیا

خس کے لیے کوئی بھی الٹ دیوے ہے پہاڑ
کس جا خزف کے واسطے دیں ہیں گہر کو گاڑ
گلبن کو بہر خار کہاں ڈالے ہیں اکھاڑ
ویرانہ گھر علی کا کیا کعبہ ڈھا دیا

بس میرؔ اب تو خامۂ آتش زباں کو تھام
سوز جگر سے تیرے جلے جا ہیں دل تمام
مانند شمع کشتہ خموشی سے کر کلام
کیا کہیے گردش فلکی نے رجھا دیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.