ہنسوں جوں گل ترے زخموں سے الفت اس کو کہتے ہیں
Appearance
ہنسوں جوں گل ترے زخموں سے الفت اس کو کہتے ہیں
تو گالی دے دعاؤں میں محبت اس کو کہتے ہیں
نہیں غم حشر کا ہر چند آفت اس کو کہتے ہیں
پھروں یاروں کا منہ دیکھوں قیامت اس کو کہتے ہیں
مرے سیلاب اشکوں میں بہے دنیا، پہ جوں سایا
نہ سرکا میں جگہ سے استقامت اس کو کہتے ہیں
عطا کر سیم شبنم جوں ہنسی صبح اپنے احساں پر
گرہ ہوئی گل کی پیشانی پر عزت اس کو کہتے ہیں
دم روشن دلی جو مارتے ہیں شمع سے زاہد
کٹے سے ناک سرکش تر ہیں ذلت اس کو کہتے ہیں
بگولے سا اڑاتا دھول عزلتؔ وجد کرتا ہے
سر بازار رسوائی میں خلوت اس کو کہتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |