ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں
Appearance
ہم نہ وحشت کے مارے مرتے ہیں
تیری دہشت کے مارے مرتے ہیں
مار مت بے مروتی سے انہیں
جو مروت کے مارے مرتے ہیں
شکوہ کیا کیجے شام غربت کا
اپنی شامت کے مارے مرتے ہیں
کیا رقیبوں کو ماریے وہ آپ
سب رقابت کے مارے مرتے ہیں
یار سے دور ہیں وطن سے جدا
اس مصیبت کے مارے مرتے ہیں
سیکڑوں اس سے ہیں گے ہم آغوش
لاکھوں حسرت کے مارے مرتے ہیں
کچھ ہماری نہ پوچھئے صاحب
ہم تو غیرت کے مارے مرتے ہیں
ہے عجب زیست منتظرؔ ان کی
جو کہ الفت کے مارے مرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |