ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر
Appearance
ہم سے کرتے ہو بیاں غیروں کی یاری آن کر
رہ گئی ہے آپ کی یہ دوست داری آن کر
ہم کو آنے سے تمہاری بزم کے کیا تھا حصول
دیکھ لیتے تھے مگر صورت تمہاری آن کر
روٹھنے پر میرے کیا لازم تھا ہو جانا خفا
بلکہ کرنی تھی تمہیں خاطر ہماری آن کر
طعن بد خواہاں سے تو اک دم نہ پاوے گا قرار
کی جو تیرے در پہ ہم نے بے قراری آن کر
تھا اگرچہ غش میں مجنوں لیکن آنکھیں کھل گئیں
سر پہ اس کے جس گھڑی لیلیٰ پکاری آن کر
جس جگر کشتہ کا تیرے لاشہ تھا خوں میں پڑا
خوب سا رویا وہاں ابر بہاری آن کر
میں بھی کیا برگشتہ طالع ہوں کہ تنہاؔ رات کو
پھر گئی در تک مرے اس کی سواری آن کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |