ہم زاد ہے غم اپنا شاداں کسے کہتے ہیں
ہم زاد ہے غم اپنا شاداں کسے کہتے ہیں
واقف نہیں عشرت کا ساماں کسے کہتے ہیں
بیمار محبت ہیں ہم تارک راحت ہیں
ناواقف صحت ہیں درماں کسے کہتے ہیں
مدت سے یہ ساماں ہے تن شعلۂ عریاں ہے
کیا چیز گریباں ہے داماں کسے کہتے ہیں
ماتھے پہ پسینہ ہے قدرت کا تماشا ہے
تاروں کی جھمک کیا ہے افشاں کسے کہتے ہیں
دل دے کے جفا سہیے آفت میں پھنسے رہیے
دانا جو ہمیں کہیے ناداں کسے کہتے ہیں
جب یار نے دیکھا ہے اک زخم لگایا ہے
سو تیروں کا دستا ہے مژگاں کسے کہتے ہیں
اس ترک کی پلکوں سے محفوظ خدا رکھے
بر کٹتے ہیں تیروں کی پیکاں کسے کہتے ہیں
دل کی جو زراعت ہے خار و خس زحمت سے
اک قطرے کی حسرت ہے باراں کسے کہتے ہیں
سچ کہتے ہیں یہ زیرک ہے عشق جنوں بے شک
واقف نہ تھے ہم گل تک زنداں کسے کہتے ہیں
ہر وقت ہے بے زاری ہر دم ہے جفاکاری
دل جوئی و دل داریٔ جاناں کسے کہتے ہیں
رخسار کا شیدا ہوں کیا گل کو سمجھتا ہوں
محو خط زیبا ہوں ریحاں کسے کہتے ہیں
مدت سے ہے دل برہم صحبت سے نہیں محرم
آزاد ہیں گھر سے ہم مہماں کسے کہتے ہیں
جاتے ہیں کبھی درگاہ شیوالے میں بھی ہے راہ
مذہب سے نہیں آگاہ ایماں کسے کہتے ہیں
حیدر سے تولا ہے رحمت کا بھروسا ہے
اے بحرؔ خطا کیا ہے عصیاں کسے کہتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |