ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
Appearance
ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
آشیانے میں پھول بھر رکھتے
ہم اگر عشق میں اثر رکھتے
امردوں کو غلام کر رکھتے
میرے دل کو سمجھتے عرش بریں
یہ ستارے اگر نظر رکھتے
کیا خبر تھی کہ دام ہے وہ زلف
ہم بھی فولاد کا جگر رکھتے
ساتھ رنگ چمن کے اڑ جاتے
آج ہم بھی جو بال و پر رکھتے
راہ دیتا جو اس کے آنے کی
زاغ کے آگے ہم جگر رکھتے
یار کی دونوں آنکھیں قاتل تھیں
اک نظر ہم کدھر کدھر رکھتے
بھید اپنا دیا نہ اس دل نے
ہم بھی کچھ اپنی فکر کر رکھتے
یہی شکوہ ہے بے وفاؤں سے
ہم نہ مرتے جو یہ خبر رکھتے
سنگ دل تجھ کو جانتے ہم اگر
صبر کی سل کلیجے پر رکھتے
گوندھتے وہ کھجور سے جوٹے آج
ہاتھ اپنے جو کچھ ہنر رکھتے
آنکھیں رو رو کے کیوں سجاتے ہو
بحرؔ آنسو نہیں اثر رکھتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |