ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
by امداد علی بحر
302789ہم خزاں کی اگر خبر رکھتےامداد علی بحر

ہم خزاں کی اگر خبر رکھتے
آشیانے میں پھول بھر رکھتے

ہم اگر عشق میں اثر رکھتے
امردوں کو غلام کر رکھتے

میرے دل کو سمجھتے عرش بریں
یہ ستارے اگر نظر رکھتے

کیا خبر تھی کہ دام ہے وہ زلف
ہم بھی فولاد کا جگر رکھتے

ساتھ رنگ چمن کے اڑ جاتے
آج ہم بھی جو بال و پر رکھتے

راہ دیتا جو اس کے آنے کی
زاغ کے آگے ہم جگر رکھتے

یار کی دونوں آنکھیں قاتل تھیں
اک نظر ہم کدھر کدھر رکھتے

بھید اپنا دیا نہ اس دل نے
ہم بھی کچھ اپنی فکر کر رکھتے

یہی شکوہ ہے بے وفاؤں سے
ہم نہ مرتے جو یہ خبر رکھتے

سنگ دل تجھ کو جانتے ہم اگر
صبر کی سل کلیجے پر رکھتے

گوندھتے وہ کھجور سے جوٹے آج
ہاتھ اپنے جو کچھ ہنر رکھتے

آنکھیں رو رو کے کیوں سجاتے ہو
بحرؔ آنسو نہیں اثر رکھتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse