ہم آج کل ہیں نامہ نویسی کی تاؤ پر
ہم آج کل ہیں نامہ نویسی کی تاؤ پر
دن بھر کبوتروں کو بھگاتے ہیں باؤ پر
رندوں کو ایک روز تو دریا دلی دکھا
کشتیٔ مے کو چھوڑ دے ساقی بہاؤ پر
لکھوں وہ شعر عارض رنگیں کی وصف بیں
تختہ چمن کا صدقے ہوں کاغذ کی ناؤ پر
کچھ حاجت کباب نہیں کیف عشق میں
سیخیں دل و جگر کی لگیں ہیں الاؤ پر
بے منت جہان تنک ظرف اگر ملے
واللہ پھر تو چرب ہے خشکا پلاؤ پر
قانع کی منہ سے نعمت دنیا خفیف ہے
بھاری ہے پاؤ نان پر مری نان پاؤ پر
آفت نشان ہیں دیدۂ فتاں کی پتلیاں
تشہیر سامری کو کریں گے یہ گاؤ پر
بازیچہ گاہ عشق میں وہ ہوں قمار باز
دونوں جہان رکھ دیے ہیں ایک داؤ پر
کیوں کر براتیوں سے نہ گھونگھٹ کرے دلہن
ساری سبھا مٹی ہے تمہارے بناؤ پر
گل گشت کی ہوس چمنستاں کی آرزو
اے بے قراریو مرے دل کو لگاؤ پر
کرتا ہوں میں جو مرہم کافور کی تلاش
کرتی ہے چاندنی مری سینے کے گھاؤ پر
کشتیٔ مے لگی رہی ساقی لبوں کے گھاٹ
ہم مے کشوں کا قافلہ ہے چل چلاؤ پر
میں جل میں آ گیا وہ نہ آیا فریب میں
میں زد پہ چڑھ گیا وہ نہ ٹھیرا لگاؤ پر
پروانے کی طرح نہ بجھا دے چراغ حسن
طوطیٔ خط کے آتش رخ سے جلاؤ پر
علم سفینہ اس کو تجھے علم سینہ بحرؔ
تو پل پر اور شیخ ہے کاغذ کی ناؤ پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |