ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
Appearance
ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
اجل کے صدقے میں یہ راہ دیکھ پائی ہے
وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے
لہو مرا تری تلوار سے ملا ایسا
کہ ناگوار پس ذبح بھی جدائی ہے
نہ پوچھئے کہ تو جلتا ہے کیوں رقیبوں سے
وہی یہ آگ ہے جو آپ نے لگائی ہے
نثار حضرت آغا علی حسنؔ خاں ہوں
زیادہ حد سے مری آبرو بڑھائی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |