ہزار وعدے کیے ہیں تم نے کبھی کسی کو وفا نہ کرنا
ہزار وعدے کیے ہیں تم نے کبھی کسی کو وفا نہ کرنا
چلو اسی پر جو غیر کہہ دیں کہیں ہمارا کہا نہ کرنا
اگر نہ سنتے ہو بات میری تو صبر آ جائے جی کو میرے
ستم ہے ان کو خموش رہنا غضب ہے سن کر سنا نہ کرنا
خوشی ہے ان کو یہ جانتا ہوں مگر میں رکھنے کو بات اپنی
کہوں یہ ان سے کہ بعد مردن تم آ کے ماتم مرا نہ کرنا
وہ جانیں عشق و ہوس کو جب تک حیات دشمن کی ہے غنیمت
بڑھے گی اس سے ہی قدر اپنی کہ غارت اس کو خدا نہ کرنا
سبب مرض کا ہے ترک عادت یہاں یہاں ہیں درد و الم کی خوگر
یہی سمجھنا دوا ہماری کہ چارہ سازو دوا نہ کرنا
اگر ہے آنا تو اب بھی آؤ نہ تنگ آ کر وہ کچھ کریں ہم
کہ جس کو سن کر کہے زمانہ کیا وہ اس نے جو تھا نہ کرنا
یہ ایک مدت کی ہے توقع مٹا نہ دینا الٰہی اس کو
اگر ہے منظور پاس اس کا ظہور روز جزا نہ کرنا
ہمیں تو مرنا ہے آخر اک دن تمہارے سر ہو کے مر رہیں گے
ستائے جانا تمہیں قسم ہے کمی نہ کرنا خطا نہ کرنا
بتا رہے ہیں فلک کو دشمن وہ منتقم ہے کرے جو چاہے
اٹھے ہوئے ہیں جو ہاتھ اپنے تصور اس کو دعا نہ کرنا
کہیں عدو کی برائیاں کیا ملے ہو اس سے ملو ولیکن
بتائے دیتے ہیں اس لیے ہم کہ ہم سے آ کر گلا نہ کرنا
لبوں پہ رہنا کہ جب تک امید آمد اس کی ہے مجھ کو باقی
کرے نہ وعدہ وفا اگر وہ تو مجھ سے اے جاں وفا نہ کرنا
یہیں ہو اپنا سا حال دشمن ملے نہ دوزخ بلا سے اس کو
نہ نکلے جب تک یہ حسرت اپنی الٰہی محشر بپا نہ کرنا
حیا کا پردہ ہے ورنہ تم تو ہوئے پشیمان جنگ دشمن
نہیں ہو فکر مصالحت میں تو ہم سے مل کر حیا نہ کرنا
سہیں گے جو کچھ پڑے گی ہم پر بلا میں پھنستے ہو کس لیے تم
اگر ہے منظور خیر سالکؔ تو ذکر ان سے مرا نہ کرنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |