ہر چیز میں عکس رخ زیبا نظر آیا
Appearance
ہر چیز میں عکس رخ زیبا نظر آیا
عالم مجھے سب جلوہ ہی جلوہ نظر آیا
تو کب کسی طالب کو سراپا نظر آیا
دیکھا تجھے اتنا جسے جتنا نظر آیا
کیں بند جب آنکھیں تو مری کھل گئیں آنکھیں
کیا تم سے کہوں پھر مجھے کیا کیا نظر آیا
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
گردوں کو بھی اب دیکھ کے ہوتی ہے تسلی
غربت میں یہی ایک شناسا نظر آیا
سب دولت کونین جو دی عشق کے بدلے
اس بھاؤ یہ سودا مجھے سستا نظر آیا
ناکام ہی تا عمر رہا طالب دیدار
ہر جلوہ ترا بعد کو پردا نظر آیا
جو دور نگاہوں سے سر عرش بریں ہے
وہ نور سر گنبد خضرا نظر آیا
مجذوبؔ کبھی سوز کبھی ساز ہے تجھ میں
تو میرؔ کبھی اور کبھی سوداؔ نظر آیا
مجذوبؔ کے جذبے کی جو سمجھے نہ حقیقت
ان عقل کے اندھوں کو یہ سودا نظر آیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |