ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
پر یار نہ سمجھیں تو یہ بات نرالی ہے
آغوش میں ہے وہ اور پہلو مرا خالی ہے
معشوق مرا گویا تصویر خیالی ہے
کیا ڈر ہے اگر اس نے در سے مجھے اٹھوایا
کہتے ہیں تغیری میں عاشق کی بحالی ہے
بالیں پہ جب آیا ہے بیمار کی تو اپنے
تب روح کے قابض نے جان اس کی نکالی ہے
میں حال بیاں اپنا کرتا ہوں غزل کہہ کے
اس واسطے اب میرا جو شعر ہے حالی ہے
مہندی کے لگانے میں پھرتی یہ نہیں دیکھی
ظالم نے ہتھیلی پر سرسوں سی جما لی ہے
ہر چند کہ پروانہ جل جانے میں ہے آندھی
پر شمع بھی آتش میں جی جھونکنے والی ہے
مانی نے شبیہ اس کی کیا سوچ کے کھینچی تھی
موئے کمر اس کے کی تصویر خیالی ہے
ظاہر ہے کہ جاگے ہو تم رات کہیں رہ کر
آنکھوں میں نشے کی تو کچھ تھوڑی سی لالی ہے
مقدور مگر کب تھا قربان ہیں ہم اس کے
دامن کی ترے جس نے یہ جھونک سنبھالی ہے
اے مصحفیؔ ہے تیرا اتنا جو سخن چسپاں
کیا تو نے جواں درزن گھر میں کوئی ڈالی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |