ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
Appearance
ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
غیر از نسا ولے نہ ملا چاہ کا مزا
خطرے سے اس کے کر نہیں سکتا میں آہ بھی
لیتا ہوں جی ہی جی میں سدا آہ کا مزا
اپنی تو عمر روز سیہ میں گزر گئی
دیکھا کبھی نہ ہم نے شب ماہ کا مزا
باللہ کہہ کے اس نے قسم کھائی تھی کہیں
واللہ بھولتا نہیں باللہ کا مزا
بوسے کے جو سوال پہ اس نے کہا تھا واہ
اب تک پھرے ہے دل میں وہی واہ کا مزا
لذت کو اس کے سمجھیں ہیں کیا صاحب ورع
کوئی پوچھے اہل فسق سے تو باہ کا مزا
کیا وہ بھی دن تھے خوب کہ لوٹیں تھے مصحفیؔ
ہم بھی نظارۂ گہہ و بے گاہ کا مزا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |