ہر عضو مسافر ہے نہیں کچھ سفری آنکھ
ہر عضو مسافر ہے نہیں کچھ سفری آنکھ
ہے آخر شب عمر چراغ سحری آنکھ
کیا کرتی ہے دل کش سخن اے رشک پری آنکھ
لو سیکھ گئی طرز کلام بشری آنکھ
ان آنکھوں میں صانع نے بھرے کوٹ کے موتی
قسمت یہ ہماری ہے کہ اشکوں سے بھری آنکھ
باتیں جو کرو ناز سے تم منہ کو چھپا کر
سننے کے لئے کان ہو اے رشک پری آنکھ
آیا ہے مرے دل کا غبار آنسوؤں کے ساتھ
لو اب تو ہوئی مالک خشکی و تری آنکھ
اب تک وہی رونا ہے وہی حسرت دیدار
ہم مر گئے اس پر بھی یہ کافر نہ مری آنکھ
تیار کیا خامۂ مو اپنے مژہ سے
کھینچیں گے مگر نقشۂ نازک کمری آنکھ
نرگس پہ نظر کیجے دوبارہ کہ وہ کٹ جائے
ہو جائے نظر ثانی میں اس کی نظری آنکھ
صحبت کا اثر صاحب بینش کو ہو کیونکر
عینک ہو اگر سبز نہ ہو جائے ہری آنکھ
باتوں کو زباں مثل سخن منہ سے نکل جائے
نظارے کو ہو پائے نگہ سے سفری آنکھ
تیر مژہ یار کو مژگاں ہی سمجھتے
کس آنکھ سے لڑتے ہی سدا بل بے جری آنکھ
رفتار تو دکھلا کے زخود رفتہ بنا دو
نرگس کی طرح ہے ہمہ تن کبک دری آنکھ
دامن کی طرح چاک ہوے آنکھ کے پردے
او دست جنوں سے کہ گئی جامہ دری آنکھ
جو اہل نظر میں کبھی خود بیں نہیں ہوتی
دیکھو کہ ہے اس عیب نمایاں سے بری آنکھ
کیا قہر سوا آیت ابرو ہوئی نازل
ڈر ہے نہ کرے دعویٔ پیغامبری آنکھ
کشتی وہ لیے نوح کی مانند چلے آئیں
طوفان بپا کر شب فرقت میں اری آنکھ
رہتے ہیں وزیرؔ اشک کی جا ٹکڑے جگر کے
ان روزوں ہوئی کان عقیق جگری آنکھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |