ہر عداوت کی ابتدا ہے عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر عداوت کی ابتدا ہے عشق
by قلق میرٹھی
316870ہر عداوت کی ابتدا ہے عشققلق میرٹھی

ہر عداوت کی ابتدا ہے عشق
کہ محبت کی انتہا ہے عشق

لو زلیخا کو کب ہوا ہے عشق
کس قدر طاقت آزما ہے عشق

فلک و مدعی و یار و اجل
سب بھلے ہیں مگر برا ہے عشق

دیکھیے اس کا ہوگا کیا انجام
اب خدا سے ہمیں ہوا ہے عشق

ہو چکا ہم سے کچھ جو ہونا تھا
تو نے یہ حال کیا کیا ہے عشق

وامق و قیس و کوہ کن کیا تھے
اجل و آفت و بلا ہے عشق

دیکھنا شوق و شرم کا شیوہ
حسن خود بیں ہے خود نما ہے عشق

کون جانے تھا اس کا نام و نمود
میری بربادی سے بنا ہے عشق

دل کرو خوں تو کیا ہے دل داری
جان جاتی رہے تو کیا ہے عشق

غم زدائی میں غم فزا کیا کچھ
دل ربا یا نہ جاں ربا ہے عشق

با وفا وہ ہیں بے وفا ہے حسن
بے وفا ہم ہیں با وفا ہے عشق

غمزہ سا غمزہ غم میں کرتا ہے
کچھ سے کچھ اب تو ہو گیا ہے عشق

کیسے کیسوں کی اس نے لی ہے جان
دیکھنا کیا ہی خوش ادا ہے عشق

کیوں کے ماتم نہ اب وفا کا رہے
میرے مرتے ہی مر مٹا ہے عشق

دیکھنا مرگ و زیست کے جھگڑے
جاں فزا حسن و جاں گزا ہے عشق

ویسا ہی ہے فرشتہ جیسی روح
اے قلقؔ تیرا آشنا ہے عشق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse