Jump to content

ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے

From Wikisource
ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے
by باقی صدیقی
330866ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائےباقی صدیقی

ہر طرف بکھرے ہیں رنگیں سائے
راہ رو کوئی نہ ٹھوکر کھائے

زندگی حرف غلط ہی نکلی
ہم نے معنی تو بہت پہنائے

دامن خواب کہاں تک پھیلے
ریگ کی موج کہاں تک جائے

تجھ کو دیکھا ترے وعدے دیکھے
اونچی دیوار کے لمبے سائے

بند کلیوں کی ادا کہتی ہے
بات کرنے کے ہیں سو پیرائے

بام و در کانپ اٹھے ہیں باقیؔ
اس طرح جھوم کے بادل آئے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.