Jump to content

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے

From Wikisource
ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے
by دل شاہ جہانپوری
319052ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرےدل شاہ جہانپوری

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے
تکمیل وفا ہے مٹ جانا جینے کی تمنا کون کرے

جو غافل تھے ہشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے
جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے

ہر صبح کٹی ہر شام کٹی بیداد سہی افتاد سہی
انجام محبت جب یہ ہے اس جنس کا سودا کون کرے

حیراں ہیں نگاہیں دل بے خود محجوب ہے حسن بے پروا
اب عرض تمنا کس سے ہو اب عرض تمنا کون کرے

فطرت ہے ازل سے پابندی کچھ قدر نہیں آزادی کی
نظروں میں ہیں دل کش زنجیریں رخ جانب صحرا کون کرے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.