ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا
Appearance
ہرگز مرا وحشی نہ ہوا رام کسی کا
وہ صبح کو ہے یار مرا شام کسی کا
اس ہستئ موہوم میں ہرگز نہ کھلی چشم
معلوم کسی کو نہیں انجام کسی کا
اتنا کوئی کہہ دے کہ مرا یار کہاں ہے
باللہ میں لینے کا نہیں نام کسی کا
ہونے دے مرا چاک گریباں مرے ناصح
نکلے مرے ہاتھوں سے بھلا کام کسی کا
ناحق کو فغاںؔ کے تئیں تشہیر کیا ہے
دنیا میں نہ ہووے کوئی بدنام کسی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |