ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
Appearance
ہجر کے ہاتھ سے اب خاک پڑے جینے میں
درد اک اور اٹھا آہ نیا سینے میں
خون دل پینے سے جو کچھ ہے حلاوت ہم کو
یہ مزا اور کسی کو نہیں مے پینے میں
دل کو کس شکل سے اپنے نہ مصفا رکھوں
جلوہ گر یار کی صورت ہے اس آئینے میں
اشک و لخت جگر آنکھوں میں نہیں ہیں میرے
ہیں بھرے لعل و گہر عشق کے گنجینے میں
شکل آئینہ ظفرؔ سے تو نہ رکھ دل میں خیال
کچھ مزا بھی ہے بھلا جان مری لینے میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |