ہجر
تو پاس تھا جی کو چین کچھ تھا
تیرا جانا کہ آفت آئی
نظروں سے چھپا جو تیرا چہرا
میرے سر پر قیامت آئی
باقی تھوڑا سا دن تھا لیکن
میری آنکھوں میں تھا اندھیرا
کیونکر ہو صبر مجھ سے ممکن
دل کو ہر دم ہے دھیان تیرا
اے ظلم کے اور ستم کے بانی
اے شوخ جفا شعار عیار
مجھ کو دوبھر ہے زندگانی
میری آنکھوں میں ہے جہاں تار
اے برق مثال اے طرحدار
اے ماہ جبیں غزال سیرت
مجھ پر تار نفس ہے اک بار
مجھ سے کوسوں پرے ہے راحت
گھر بھر سوتا ہے ایک بیتاب
آہیں بھر کر تڑپ رہا ہے
بھولے بھی آنکھ کو نہیں خواب
ظلمت شب کی عجب بلا ہے
ہرگز ہرگز مجھے میسر
آئی کوئی گھڑی نہ راحت
کیسا کیسا رہا ہوں مضطر
کتنی کتنی اٹھائی زحمت
دل کو ہے سخت بے قراری
جینے کے پڑ گئے ہیں لالے
دل کی حالت نہ یہ مٹے گی
جب تک تو ہی نہ پھر سنبھالے
مجھ کو تنہائی گو ستائے
تجھ کو عیش و طرب ہو میموں
مجھ پر آفت ہزار آئے
تجھ سے خوش طالعی ہو مقروں
تجھ سے چھٹنا ہے سخت مشکل
جب تک ہے حافظے میں قدرت
تیرا تیرا رہے گا یہ دل
جب تک نہ ملائے تجھ سے قسمت
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |