ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
Appearance
ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
دست نازک ہے حسینوں کا مقرر آئینہ
بن گیا غماز شکل ان کی دکھا کر آئینہ
جو ہمارا راز دل تھا اب ہے ان پر آئینہ
توڑ کر دل تم نے کھویا امتیاز حسن بھی
اک تمہارے پاس تھا یا اب ہے گھر گھر آئینہ
دیکھنا ہے کس میں اچھی شکل آتی ہے نظر
اس نے رکھا ہے مرے دل کے برابر آئینہ
آئنہ رکھو لو کہ دونا لطف آئے وقت رنج
اس طرف تم اس طرف کھینچے ہو خنجر آئینہ
عکس سے اپنے کسی کے گرم جوشی قہر تھی
رہ گیا آخر پسینے میں نہا کر آئینہ
شوق خود بینی ستم نیندیں جوانی کی غضب
بے خبر سوتے ہیں وہ رکھا ہے منہ پر آئینہ
شوخیوں سے بن گیا بجلی کسی کا عکس بھی
اب تو ہاتھوں سے نکلتا ہے تڑپ کر آئینہ
یوں کہاں ممکن تھا حسن خاص کا دیدار عام
بن گئی آخر سراپا صبح محشر آئینہ
دیکھ لیں شاید نظرؔ وہ دیدۂ انصاف سے
لے چلو ٹوٹے ہوئے دل کا بنا کر آئینہ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |