Jump to content

گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو

From Wikisource
گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو (1911)
by وفا لکھنوی
305095گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو1911وفا لکھنوی

گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو
جو یہ ساماں میسر ہو تو لطف زندگانی ہو

مزہ کیا خضر کی صورت جو عمر جاودانی ہو
ہم اس جینے سے باز آئے جو تنہا زندگانی ہو

گھٹا ہے ساقیا سامان وصل یار جانی ہو
لبالب ہر صراحی میں شراب ارغوانی ہو

خزاں میں کہتے ہیں پیر مغاں سے رند مشرب یوں
بہار آئی کہیں دور شراب ارغوانی ہو

کسی یوسف لقا پر دل جو آئے عہد پیری میں
نئے سر سے زلیخا کی صفت پھر نوجوانی ہو

مجھے شوق شہادت تشنہ لب لایا ہے مقتل میں
پلا دے آب خنجر پیاس اگر قاتل بجھانی ہو

وہ مجرم ہوں کہوں گا حشر میں اللہ سے رو کر
جہنم سے میں بچ جاؤں جو تیری مہربانی ہو

محبت ان بتان سنگ دل سے دیکھ کر کرنا
شب فرقت کی ایذا گر تجھے اے دل اٹھانی ہو

تری تصویر اے جاں کھینچ لے کیا تاب رکھتا ہے
نظر بھر کر اگر دیکھے تجھے بے ہوش مانی ہو

پئے جاتا ہوں خم کے خم وہ مے خانے میں مے کش ہوں
پلائے جا مجھے ساقی جہاں تک مے پلانی ہو

حباب بحر کی صورت نہیں دم بھر ثبات اس کو
مری نظروں میں پھر دنیائے دوں کیونکر نہ فانی ہو

کھڑا ہوں طور پر کب سے مجھے دیدار دکھلا دو
کلیم اللہ جب آئیں تو ان سے لن ترانی ہو

وفاؔ بہر خدا چھوڑو محبت ان حسینوں کی
بتوں کے ہجر میں ایسا نہ ہو ضائع جوانی ہو


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.