گو یہ غم ہے کہ وہ حبیب نہیں
Appearance
گو یہ غم ہے کہ وہ حبیب نہیں
پر خوشی ہے کوئی رقیب نہیں
کیوں نہ ہوں طفل اشک آوارہ
کہ معلم نہیں ادیب نہیں
کل تصور میں آئی جو شب گور
شب فرقت سے وہ مہیب نہیں
ہیں سواری کے ساتھ فریادی
کوئی اور آپ کا نقیب نہیں
مدتوں سے ہوں جانتا ہوں وطن
دشت غربت میں میں غریب نہیں
تجھ سے اے دل خدا تو ہے اقرب
غم نہیں بت اگر قریب نہیں
جان کیوں کر بچے گی فرقت میں
ہیں عدو سیکڑوں حبیب نہیں
زندگانی مرض ہے موت شفا
جز اجل کوئی اب طبیب نہیں
جیتے جی پاؤں دوست کا دیدار
ناسخؔ ایسے مرے نصیب نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |