گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
Appearance
گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
بے نیازی کے بادشا ہیں ہم
چشم تحقیر سے ہمیں مت دیکھ
خاک تو ہیں پہ توتیا ہیں ہم
آہ اس عمر بے بقا کی طرح
رہرو کشور فنا ہیں ہم
ایسا بے برگ و بے نواہی کون
جیسے بے برگ و بے نوا ہیں ہم
گو ہمیں تو کبھی نہ یاد کرے
پر تری یاد میں سدا ہیں ہم
مبتلا اس بلا میں کوئی نہ ہو
جس بلا میں کہ مبتلا ہیں ہم
مار کر بھی ہمیں پہ پچھتایا
بے وفا تو کہ بے وفا ہیں ہم
جبہہ سائی سے دشمنی ہے جسے
اسی کے در پہ جبہہ سا ہیں ہم
کون رہبر ہو عشق کی رہ میں
آپ ہی اپنے رہنما ہیں ہم
ہیں تو صورت پرست آئینہ دار
نیک معنی سے آشنا ہیں ہم
اور دیوانہ کون ہے ؔجوشش
یا دوانا تھا قیس یا ہیں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |