گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے
Appearance
گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے
کرم تمہارے کی کر توقع یہ عرض کیتے ہیں مان لیجے
غریب عاجز جفا کے مارے فقیر بے کس گدا تمہارے
سو ویں ستم سیں مریں بچارے اگر جو ان پر کرم نہ کیجے
پڑے ہیں ہم بیچ میں بلا کے کرم کرو واسطے خدا کے
ہوئے ہیں بندے تری رضا کے جو کچھ کے حق میں ہمارے کیجے
بپت پڑی ہے جنہوں پے غم کی جگر میں آتش لگی الم کی
کہاں ہے طاقت انہیں ستم کی کہ جن پہ ایتا عتاب کیجے
ہمارے دل پہ جو کچھ کہ گزرا تمہارے دل پر اگر ہو ظاہر
تو کچھ عجب نہیں پتھر کی مانند اگر یتھا دل کی سن پسیجے
اگر گنہ بھی جو کچھ ہوا ہے کہ جس سیں ایتا ضرر ہوا ہے
تو ہم سیں وہ بے خبر ہوا ہے دلوں سیں اس کوں بھلائے دیجے
ہوئے ہیں ہم آبروؔ نشانے لگے ہیں طعنے کے تیر کھانے
ترا برا ہو ارے زمانے بتا تو اس طرح کیوں کہ جیجے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |