Jump to content

گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ

From Wikisource
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ (1900)
by حبیب موسوی
324744گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ1900حبیب موسوی

گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ

کشود کار کی کوشش میں دے نہ حرص کو دخل
شکست دیتی ہے فوجوں کو کارزار میں لوٹ

لبھائے سیکڑوں دل ان کے خال عارض نے
مچائے زنگیوں نے وادیٔ تتار میں لوٹ

وہ منتظم ہے رہے جس کی جز و کل پہ نظر
نہ کر سکے کوئی گونگیر کاروبار میں لوٹ

جہاں میں ہوتی ہے احسان کی جزا احسان
ثواب نیکیوں کے دور اختیار میں لوٹ

عبث ہے بوند کا چوکا اگر گھڑے ڈھلکائے
ہمیشہ نقد میں وارا ہے یاں ادھار میں لوٹ

کئے ہیں شیب نے سب جسم کے قویٰ کمزور
شروع ہو گئی ہر سمت اس حصار میں لوٹ

ہجوم یاس میں چھوڑ اے امید کشور دل
ہے قتل عام کا غل شہر میں جوار میں لوٹ

بنے وہ فاتح کونین خوش ہو تو جس سے
زیادہ گنج کواکب سے ہو شمار میں لوٹ

دیار دل میں ہے پھر داغ عشق کا توڑا
جنوں متاع ہوس موسم بہار میں لوٹ

بھری ہے تازہ ہر ایک سر میں شور و شر کی ہوا
عجب نہیں جو مچے باغ روزگار میں لوٹ

حبیبؔ مشق ریاضت سے کھو کے زنگ دوئی
مزے وصال کے ہر دم فراق یار میں لوٹ


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.