گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا
Appearance
گر جنوں کر مجھے پابند سلاسل جاتا
پاؤں رکھنے کا ٹھکانا تو کہیں مل جاتا
مر بھی جاتا تو نہ میرا مرض سل جاتا
غم اصنام کی چھاتی پہ دھرے سل جاتا
خط عارض جو ترشنے سے مٹے ہے یہ محال
چھیلنے سے نہیں قسمت کا لکھا چھل جاتا
چھوٹتا عید کے دن بھی نہ گرفتاروں کو
صورت طوق گلو گیر گلے مل جاتا
جب چمکتی ہے تری تیغ تبسم اے گل
دہن زخم ہے غنچے کی طرح کھل جاتا
دل میں ہوتا نہ مرے دخل بلاے کاکل
سایہ رہتا نہ کبھی گریہ مکاں کل جاتا
رعشہ اندام ہوں یہ خوف خدا سے اے شادؔ
کوئی مجرم ہو کلیجہ ہے مرا ہل جاتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |