گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے
by حاتم علی مہر
303359گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہےحاتم علی مہر

گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے
بس اب پاؤں ہیں اپنے اور سر خار مغیلاں ہے

ہوائے‌ دشت وحشت ہم کو لے اڑتی ہے بستی سے
ہمارا عنصر خاکی مگر ریگ بیاباں ہے

سبق کو دیکھتا ہوں رات بھر اور پھر الجھتا ہوں
مطول مختصر وہ شرح شعر زلف پیچاں ہے

جلاتا ہے یہ پروانوں کو وصف‌ شعلہ رویاں سے
زبان خامہ بھی اب تو زبان شمع سوزاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse