گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے
Appearance
گریباں ہاتھ میں ہے پاؤں میں صحرا کا داماں ہے
بس اب پاؤں ہیں اپنے اور سر خار مغیلاں ہے
ہوائے دشت وحشت ہم کو لے اڑتی ہے بستی سے
ہمارا عنصر خاکی مگر ریگ بیاباں ہے
سبق کو دیکھتا ہوں رات بھر اور پھر الجھتا ہوں
مطول مختصر وہ شرح شعر زلف پیچاں ہے
جلاتا ہے یہ پروانوں کو وصف شعلہ رویاں سے
زبان خامہ بھی اب تو زبان شمع سوزاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |