گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں
Appearance
گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں
لیکن اپنے نیست ہو جانے میں سب ناچار ہیں
دوستی اور دشمنی ہے ان بتاں کی ایک سی
چار دن ہیں مہرباں تو چار دن بیزار ہیں
جی کوئی منصور کے جوں جان کرتے ہیں فدا
وے سپاہی عاشقوں کی فوج کے سردار ہیں
یہ جو سجتی ہے کٹاری دار مشروع کی ازار
مارنے کے وقت عاشق کے ننگی تروار ہیں
دوستی اور پیار کی باتوں پے خوباں کی نہ بھول
شوخ ہوتے ہیں نپٹ عیار کس کے یار ہیں
جو نشہ جوانی کا اترے گا تو کھینچیں گے خمار
اب تو خوباں سب شراب حسن کے سرشار ہیں
کس طرح چشموں سیتی جاری نہ ہو دریائے خوں
تھل نہ پیرا آبروؔ ہم وار اور وے پار ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |