گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
Appearance
گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں
پڑا جس دن سے دل بس میں ترے اور دل کے ہم بس میں
کبھی ملنا کبھی رہنا الگ مانند مژگاں کے
تماشہ کج سرشتوں کا ہے کچھ اخلاص کے بس میں
توقع کیا ہو جینے کی ترے بیمار ہجراں کے
نہ جنبش نبض میں جس کی نہ گرمی جس کے ملمس میں
دکھائے چیرہ دستی آہ بالادست گر اپنی
تو مارے ہاتھ دامان قیامت چرخ اطلس میں
جو ہے گوشہ نشیں تیرے خیال مست ابرو میں
وہ ہے بیت الصنم میں بھی تو ہے بیت المقدس میں
کرے لب آشنا حرف شکایت سے کہاں یہ دم
ترے محزون بے دم میں ترے مفتون بیکس میں
ہوائے کوے جاناں لے اڑے اس کو تعجب کیا
تن لاغر میں ہے جاں اس طرح جس طرح بو خس میں
مجھے ہو کس طرح قول و قسم کا اعتبار ان کے
ہزاروں دے چکے وہ قول لاکھوں کھا چکے قسمیں
ہوئے سب جمع مضموں ذوقؔ دیوان دو عالم کے
حواس خمسہ ہیں انساں کے وہ بند مخمس میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |