کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
Appearance
کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
اس آہ میں تو ہم نے کچھ بھی اثر نہ دیکھا
کیا کیا بہاریں آئیں کیا کیا درخت پھولے
نخل دعا کو لیکن میں بارور نہ دیکھا
ہرگز ہوا نہ یارو وہ شوخ یار اپنا
زیں پیش ورنہ ہم نے کیا کیا کہ کر نہ دیکھا
رہتے ہیں کیا بھلا واں آفت زدے ہی سارے
اس کوچے میں کسی کا آباد گھر نہ دیکھا
پہنچا گلی تک اس کے آگے کھڑا رہا میں
آگے قدم کے رکھتے پھر نامہ بر نہ دیکھا
دو دو پہر تک اس کے آگے کھڑا رہا میں
پر اس نے ضد کے مارے بھر کر نظر نہ دیکھا
کیا فائدہ رکھے ہے بس اب زیادہ مت رو
رونا ترا کسی نے اے چشم تر نہ دیکھا
کل یار کی گلی میں ڈھونڈا جو مصحفیؔ کو
اک لاش تو پڑی تھی پر اس کا سر نہ دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |