کیوں ہو نہ ہمیں عشق صنم اور زیادہ
Appearance
کیوں ہو نہ ہمیں عشق صنم اور زیادہ
دیتا ہے مزہ عشق کا غم اور زیادہ
دل تو عوض بوسہ دیا تم نے جگر بھی
لی مفت میں یہ ایک رقم اور زیادہ
لکھتا ہوں تجھے تیری رکاوٹ کا جو شکوہ
چلتا ہے مرا رک کے قلم اور زیادہ
دیتا ہوں تری شوخ نگاہوں سے ہی تشبیہ
رم کرتے ہیں آہوئے حرم اور زیادہ
پسپا نہ ہوا قیس سے میدان وفا میں
بڑھتا ہی رہا اپنا قدم اور زیادہ
ہو جاتے ہیں جب ہم سے کشیدہ ترے ابرو
کھینچتی ہے تری تیغ دو دم اور زیادہ
ہوتا ہوں دلیرؔ ان سے جو میں لطف کا خواہاں
وہ کرتے ہیں رہ رہ کے ستم اور زیادہ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |