کیوں کر شکار حسن نہ کھیلیں یہاں کے لوگ
Appearance
کیوں کر شکار حسن نہ کھیلیں یہاں کے لوگ
پریوں کو پھانس لیتے ہیں ہندوستاں کے لوگ
آپس میں ایک دوسرے سے آشنا نہیں
زیر زمیں بھرے ہیں الٰہی کہاں کے لوگ
باغ جہاں سے جاتے نہیں جانب بہشت
ناحق طمانچے کھاتے ہیں باد خزاں کے لوگ
شہر وفا کا سجدۂ شکرانہ ہے یہی
پتھر سے سر پٹکتے ہیں شہر بتاں کے لوگ
زنار سے ہے کم رگ جاں جس کے سامنے
بندہ ہوئے ہیں اس بت نا مہرباں کے لوگ
اپنی خبر لے اوروں سے کیا کام اے منیرؔ
کس کا زمانہ کون سی بستی کہاں کے لوگ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |