کیوں دیکھیے نہ حسن خداداد کی طرف
کیوں دیکھیے نہ حسن خداداد کی طرف
لازم نظر ہے گلشن ایجاد کی طرف
پائے جو تیرے گوشۂ دستار کی ہوا
قمری اڑی نہ طرۂ شمشاد کی طرف
بے اصل اے فلک نظر آتا ہے تو مجھے
کرتا ہوں غور جب تری بنیاد کی طرف
گلشن میں کون بلبل نالاں کو دے پناہ
گلچیں و باغباں بھی ہیں صیاد کی طرف
مظلوم ہوں مگر نہیں ملتا کوئی گواہ
ہیں اہل حشر اس ستم ایجاد کی طرف
ناداں کہیں پناہ نہیں موت سے تجھے
کیا دیکھتا ہے قلعۂ فولاد کی طرف
ہم جنس کو ضرور ہے ہم جنس کا خیال
رغبت نہ ہو بشر کو پری زاد کی طرف
مضموں کمر کا ہاتھ نہ آیا جو دہر میں
جانا پڑا مجھے عدم آباد کی طرف
تکلیف جوئے شیر کی دے کر جو تھی خجل
شیریں نہ دیکھ سکتی تھی فرہاد کی طرف
دیوانگی کا زور تماشا ہے اے پری
فصاد کی نگاہ ہے حداد کی طرف
گردن جھکائے شوق شہادت میں ہوں رواں
دل لے چلا ہے کوچۂ جلاد کی طرف
امیدوار چشم عنایت کا ہے غریب
دیکھو تو اک نظر دل ناشاد کی طرف
ناصح اگر ستم نہ سہیں ہم تو کیا کریں
دل دوڑتا ہے یار کی بیداد کی طرف
بلبل سمجھ رہی ہے کہ گلہائے خندہ رو
رکھتے ہیں کان نالہ و فریاد کی طرف
فضل خدا سے اپنی طبیعت ہے بے نیاز
روئے طلب کبھی نہ ہوا داد کی طرف
واعظ سے سن کے قامت توبہ کی خوبیاں
دوڑا خیال اک قد آزاد کی طرف
بھولے ہوئے ہیں سارے زمانے کی نعمتیں
میلان دل جنہیں ہے تیری یاد کی طرف
یا شاہ جن و انس اثرؔ پر بھی اک نظر
رکھتا ہے آنکھ آپ کی امداد کی طرف
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |