Jump to content

کیوں خرابات میں لاف ہمہ دانی واعظ

From Wikisource
کیوں خرابات میں لاف ہمہ دانی واعظ
by امیر اللہ تسلیم
317198کیوں خرابات میں لاف ہمہ دانی واعظامیر اللہ تسلیم

کیوں خرابات میں لاف ہمہ دانی واعظ
کون سنتا ہے تری ہرزہ بیانی واعظ

دفتر وعظ کے نقطے بھی نہ ہوں گے اتنے
جتنے ہیں دل میں مرے داغ نہانی واعظ

سچ سہی جنت و دوزخ کا فسانہ لیکن
کس طرح مان لوں میں تیری زبانی واعظ

بے وضو پائے خم بادہ کو چھو لیتا ہے
خاک آتی ہے تجھے مرتبہ دانی واعظ

نرم بھی دل سخن گرم سے اب تک نہ ہوا
دیکھ لی ہم نے تری شعلہ بیانی واعظ

نیک و بد خوب سمجھتا ہوں کروں کیا کہ ابھی
سننے دیتا نہیں آشوب جوانی واعظ

رندی و زہد ریائی میں ہیں دونوں یکتا
مثل میرا ہے نہ تیرا کوئی ثانی واعظ

یہ خرابات ہے جا خیر سے اپنے گھر کو
منہ کی کھلوائے نہ پھر تیز زبانی واعظ

آج سمجھا گئی کیا تجھ کو عبادت تیری
نہ رہا مشغلۂ اشک فشانی واعظ

اس قدر ہے جو دم نزع ہوس دنیا کی
ساتھ لے جائے گا کیا عالم فانی واعظ

رند ہوں دے مجھے جام مئے اطہر کی خبر
تجھ کو کوثر کا مبارک رہے پانی واعظ

زرد ہو جاتا ہے سن کر رخ گلگوں میرا
تری تقریر ہے یا باد خزانی واعظ

نقشہ فردوس کا باتوں میں دکھا دیتا ہے
یہ زباں ہے تری یا خامۂ مانی واعظ

چلتے پھرتے نہیں بے وجہ یہ رونا میرا
ساتھ پھرتا ہوں لیے غم کی نشانی واعظ

کیا رکے خامۂ تسلیمؔ دم فکر سخن
طبع میں آج ہے دریا کی روانی واعظ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.