کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور
Appearance
کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور
دیکھو زمیں فلک سے فلک ہے زمیں سے دور
پروانہ وصل شمع پہ دیتا ہے اپنی جاں
کیونکر رہے دل اس کے رخ آتشیں سے دور
مضمون وصل و ہجر جو نامہ میں ہے رقم
ہے حرف بھی کہیں سے ملے اور کہیں سے دور
گو تیر بے گماں ہے مرے پاس پر ابھی
جائے نکل کے سینۂ چرخ بریں سے دور
وہ کون ہے کہ جاتے نہیں آپ جس کے پاس
لیکن ہمیشہ بھاگتے ہو تم ہمیں سے دور
حیران ہوں کہ اس کے مقابل ہو آئینہ
جو پر غرور کھنچتا ہے ماہ مبیں سے دور
یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں
وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور
منظور ہو جو دید تجھے دل کی آنکھ سے
پہنچے تری نظر نگہ دور بیں سے دور
دنیائے دوں کی دے نہ محبت خدا ظفرؔ
انساں کو پھینک دے ہے یہ ایمان و دیں سے دور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |