کیجیے ظلم سزا وار جفا ہم ہی ہیں
Appearance
کیجیے ظلم سزا وار جفا ہم ہی ہیں
کھینچیے تیغ کہ مدت سے فدا ہم ہی ہیں
تفتہ دل سوختہ جاں چاک جگر خاک بسر
کیا کہیں مصدر صد گونہ بلا ہم ہی ہیں
نہیں موقوف دعا اپنی تو کچھ بعد نماز
بیٹھتے اٹھتے جو مانگیں ہیں دعا ہم ہی ہیں
یہ بھی کوئی طور سے ٹک جلوہ دکھا چھپ جانا
اور بھی لوگ ہیں ترسانے کو کیا ہم ہی ہیں
وہ جو کہلاتے تھے زیں پیش ترے یاروں میں
جان من اب تو ہمیں بھول گیا ہم ہی ہیں
نہ برہمن کی مشیخت ہے نہ رہبان کی قدر
اب تو اس مے کدے میں نام خدا ہم ہی ہیں
عشوہ و ناز ترا ہم سے یہی کہتا ہے
نہیں کرتے جو کبھی تیر خطا ہم ہی ہیں
بے نواؤں کی طرح آ کے ترے کوچے میں
وہ جو کر جاتے ہیں اک روز صدا ہم ہی ہیں
آدھی رات آئے ترے پاس یہ کس کا ہے جگر
چونک مت اتنا کہ اے ہوش ربا ہم ہی ہیں
مصحفیؔ ٹل گئے سب معرکۂ عشق کے بیچ
وہ جو ٹھہرے رہے ہیں ایک ذرا ہم ہی ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |