کیا ہے عشق نے آزاد دو جہاں سے ہمیں
Appearance
کیا ہے عشق نے آزاد دو جہاں سے ہمیں
نہ کچھ یہاں سے غرض ہے نہ کچھ وہاں سے ہمیں
خودی کو بھول کے مست الست ہو جانا
ملا ہے فیض یہ خم خانۂ مغاں سے ہمیں
اذاں حرم میں ہے ناقوس ہے کنشت میں تو
صدائیں آتی ہیں تیری کہاں کہاں سے ہمیں
پھر آج اٹھا ہے وہ پردۂ حجاب کہیں
شعاعیں سی نظر آتی ہیں کچھ یہاں سے ہمیں
مثال شمع ہیں سب رات بھر کے یہ جلوے
سحر کو اٹھنا ہے اس محفل جہاں سے ہمیں
مٹا کے ہستئ موہوم تجھ کو پایا ہے
پتہ ملا ہے ترا خاک بے نشاں سے ہمیں
چمن سے اٹھ گیا رونقؔ جب آشیاں اپنا
نہ پھر بہار سے مطلب نہ کچھ خزاں سے ہمیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |