کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
Appearance
کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے
وہ بھی چپ بیٹھے ہیں اغیار بھی چپ میں بھی خموش
ایسی صحبت سے طبیعت مری گھبراتی ہے
کیوں نہ ہو اپنی لگاوٹ کی نظر پر نازاں
جانتے ہو کہ دلوں کو یہ لگا لاتی ہے
بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں
کوئی گزری ہوئی صحبت مجھے یاد آتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |