کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا
by امداد علی بحر
302770کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیاامداد علی بحر

کیا سلام جو ساقی سے ہم نے جام لیا
پڑھے درود جو پیر مغاں کا نام لیا

چہ ذقن میں گرا چاہتا تھا دل میرا
دراز عمر ہو زلف رسا نے تھام لیا

کسی کا زور زبردست پر نہیں چلنا
فلک نے ظلم کیا کس نے انتقام لیا

نصیب ور تھی زلیخا جو پایا یوسف کو
کنیز ہو گئی اس شکل کا غلام لیا

بھرا لبوں نے برابر دم مسیحائی
جب اس کے ابروؤں نے حکم قتل عام لیا

مزاج پوچھا کسی کا تو ان کا منہ دیکھا
کسک سے ہاتھ میں آئے اگر سلام لیا

لگایا تھا کہیں دل ہم نے وہ مزا چکھا
زباں نے پھر نہ کبھی عاشقی کا نام لیا

بھرا ہے آنکھ میں جادو کھلا اشارے سے
زبان کا مژہ بے زباں سے کام لیا

بہت کمر کے لچکنے کا ہے خیال ان کو
جو دو قدم بھی چلے پائینچوں کو تھام لیا

چڑھا خمار جو سر پر اتر گئی عزت
عمامہ رکھ کے گرو ساغر مدام لیا

اٹھا کے داغ لیا حق سعی کا پیسا
نہ مرتشی کی طرح ہم نے زر حرام لیا

ہوا کو جان دی میں نے زمین کو مٹی
ادا کیا دم رخصت جو قرض دام لیا

معاف کی ہے خدا نے ضعیف پر تکلیف
ستم کیا اگر اب دست و پا سے کام لیا

قسم نہ کھاؤں گا تیسوں کلام کی اے بحرؔ
کسی کا خواب میں بوسہ تو لا کلام لیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse