Jump to content

کیا دم نزع کوئی اور تمنا کرتے

From Wikisource
کیا دم نزع کوئی اور تمنا کرتے (1940)
by سید ہمایوں میرزا حقیر
324245کیا دم نزع کوئی اور تمنا کرتے1940سید ہمایوں میرزا حقیر

کیا دم نزع کوئی اور تمنا کرتے
جب تلک دم نہ نکلتا اسے دیکھا کرتے

درد دوری کا بجز مرگ نہیں کوئی علاج
ایسے بیمار کی ہم کوئی دوا کیا کرتے

ایسے بھولے کہ کبھی پھر کے نہ پوچھا تم نے
کچھ تو اے راحت جاں پاس وفا کا کرتے

جور سب ہم نے سہے جتنے کیے گردوں نے
دوریٔ یار کو کس طرح گوارہ کرتے

چشم مخمور سے بے خود جو نہ ہو جاتے ہم
دل کو آتش کدہ اور چشم کو دریا کرتے

کر کے بسمل جو ہمیں چھوڑ دیا قاتل نے
ہم تڑپتے کہ اسے دیکھتے کیا کیا کرتے

وہ عیادت کو حقیرؔ آپ کی آتے جو کبھی
کرتے احسان اگر آپ کو اچھا کرتے


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).