کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
Appearance
کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
یہ دل تو ہے وہی اسے پہچان لیجئے
ہم سے تو یہ کبھی نہیں ہونے کا ناصحو
سنئے تمہاری بات کو اور مان لیجئے
نے عیش کی طلب ہے نہ عشرت کی آرزو
اے چرخ کس لیے ترا احسان لیجئے
گر حکم ہو تو کاٹ کے سر آگے لا رکھوں
لینے کا اس کے رکھئے نہ ارمان لیجئے
آیا ہوں تنگ شہر میں وحشت کے ہاتھ سے
جی چاہتا ہے راہ بیابان لیجئے
گر امتحان عشق ہو منظور تو ابھی
کرتا ہوں میں نیاز دل و جان لیجئے
منہ دیکھ نو خطوں کا یہی آئے ہے خیال
دے کر کے نقد جان یہ قرآن لیجئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |