Jump to content

کیا بتاؤں بے ترے کیسا رہا

From Wikisource
کیا بتاؤں بے ترے کیسا رہا (1937)
by رفیع احمد عالی
324356کیا بتاؤں بے ترے کیسا رہا1937رفیع احمد عالی

کیا بتاؤں بے ترے کیسا رہا
یہ سمجھ مر مر کے میں جیتا رہا

چودھویں کی رات میں نکلا جو چاند
مجھ کو پہروں آپ کا دھوکا رہا

بھول کر بھی تم کو کچھ آیا نہ دھیان
مرنے والا مر گیا جیتا رہا

کس لئے اوروں سے ہو تم پوچھتے
دیکھ لو اب آ کے مجھ میں کیا رہا

جی گیا تو میں یہ سمجھا جی گیا
جیتے جی کا روگ تھا جاتا رہا

کیا لگایا ہاتھ دھڑ سے آپ نے
پاؤں پر سر کٹ کے دھڑ سے آ رہا

رکھ گئے دو پھول میرے ڈھیر پر
مر گئے پر بوجھ یہ ان کا رہا

میں ہی اک کانٹا تھا سو میں بھی نہیں
سچ ہے اب کس کا انہیں کھٹکا رہا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).