کیا آ کے جہاں میں کر گئے ہم
Appearance
کیا آ کے جہاں میں کر گئے ہم
اک داغ جگر پہ دھر گئے ہم
مہمان جہاں تھے ایک شب کے
شام آئے تھے اور سحر گئے ہم
جوں شمع تمام عمر روئے
ہر بزم سے چشم تر گئے ہم
اپنی ہی نظر نہیں وگرنہ
تو ہی تھا ادھر جدھر گئے ہم
نالے میں اثر تو کیوں نہ ہوتا
پر تیرا لحاظ کر گئے ہم
ہم جانتے ہیں کہ تو ہے ہم میں
گو ڈھونڈنے در بہ در گئے ہم
جھگڑا تھا جو دل پہ اس کو چھوڑا
کچھ سوچ کے صلح کر گئے ہم
اس دشت کے خار و خس سے بچ کر
جوں باد سبک گزر گئے ہم
تھیں لطف سے دل میں جرأتیں کچھ
پر تیرے غضب سے ڈر گئے ہم
حسرت ہی سے ہم بنے تھے گویا
آنکھ اٹھتے ہی اٹھتے مر گئے ہم
دیرینہ رفیق تھا قلقؔ ہائے
وہ کیا ہی موا کہ مر گئے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |