کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینے میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملایم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد
اس لعل لب کے ہم نے لیے بوسے اس قدر
سب اڑ گئی مسی کی دھڑی دو گھڑی کے بعد
اللہ رے ضعف سینہ سے ہر آہ بے اثر
لب تک جو پہنچی بھی تو چڑھی دو گھڑی کے بعد
کل اس سے ہم نے ترک ملاقات کی تو کیا
پھر اس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد
تھے دو گھڑی سے شیخ جی شیخی بگھارتے
ساری وہ شیخی ان کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کہتا رہا کچھ اس سے عدو دو گھڑی تلک
غماز نے پھر اور جڑی دو گھڑی کے بعد
پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اس کی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
تو دو گھڑی کا وعدہ نہ کر دیکھ جلد آ
آنے میں ہوگی دیر بڑی دو گھڑی کے بعد
گو دو گھڑی تک اس نے نہ دیکھا ادھر تو کیا
آخر ہمیں سے آنکھ لڑی دو گھڑی کے بعد
کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوقؔ کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |