کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری بوئے زلف رسا گئی
Appearance
کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری بوئے زلف رسا گئی
ترے کوچے سے جو چمن تلک گل اڑاتی خاک صبا گئی
مرض اک جہاں سے نرالا تھا مری جان تیرے مریض کا
نہ ہوا کسی سے علاج جب اجل اس کی کرنے دوا گئی
غرض اس نباہ کے صدقے میں غرض ایسی چاہ کے صدقے میں
نہ ترا ہی جور و جفا گیا نہ مری ہی مہر و وفا گئی
یہ بہار ہووے گی سب خزاں نہ سمن نہ لالہ نہ ارغواں
دم گرم کی مرے دوستاں کبھو باغ میں جو ہوا گئی
جو فدائے صورت خوب ہیں انہیں تب کہوں گا کہ دیکھیے
کوئی شکل اپنی ہی چشم میں کبھو سیر کرتی جو آ گئی
میں ہوا بہ خاک سیہ فرو ترے کوچے میں بہ صد آرزو
رہا شرمگیں ہی ہمیشہ تو تری اب تلک نہ حیا گئی
سر اٹھاؤں کیوں کے میں مصحفیؔ نہیں مجھ میں تاب و تواں ذری
کہ خرام اس بت شوخ کی مجھے خاک ہی میں ملا گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |