کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی
Appearance
کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی
جان دیتا ہے بے سبب کوئی
جاوے قاصد ادھر تو یہ کہیو
راہ تکتا ہے روز و شب کوئی
گو کہ آنکھوں میں اپنی آوے جان
منہ دکھاتا ہے ہم کو کب کوئی
بن گیا ہوں میں صورت دیوار
سامنے آ گیا ہے جب کوئی
گرچہ ہم سائے اس پری کے رہے
نہ ملا جھانکنے کا ڈھب کوئی
حد خوش آیا یہ شعر میرؔ مجھے
کر کے لایا تھا منتخب کوئی
اب خدا مغفرت کرے اس کی
میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی
اے فلک اس کو تو غنیمت جان
مصحفیؔ سا نہیں ہے اب کوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |