کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
Appearance
کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں
اب ایک سی بے ہوشی رہتی نہیں ہے ہم کو
کچھ دل بھی سنبھلتے ہیں پر دیر سنبھلتے ہیں
وہ تو نہیں اک چھینٹا رونے کا ہوا گاہے
اب دیدۂ تر اکثر دریا سے ابلتے ہیں
ان پاؤں کو آنکھوں سے ہم ملتے رہے جیسا
افسوس سے ہاتھوں کو اب ویسا ہی ملتے ہیں
کیا کہیے کہ اعضا سب پانی ہوئے ہیں اپنے
ہم آتش ہجراں میں یوں ہی پڑے گلتے ہیں
کرتے ہیں صفت جب ہم لعل لب جاناں کی
تب کوئی ہمیں دیکھے کیا لعل اگلتے ہیں
گل پھول سے بھی اپنے دل تو نہیں لگتے ٹک
جی لوگوں کے بے جاناں کس طور بہلتے ہیں
ہیں نرم صنم گو نہ کہنے کے تئیں ورنہ
پتھر ہیں انھوں کے دل کاہے کو پگھلتے ہیں
اے گرم سفر یاراں جو ہے سو سر رہ ہے
جو رہ سکو رہ جاؤ اب میرؔ بھی چلتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |